ہفتہ، 21 مارچ، 2015

حرام کی کمائی

حرام کی کمائی
(جس کے آجکل پھاٹک کھل گئے ہیں)

ایک مسلمان کتنا ہی گیا گزرا کیوں نہ ہو۔ اس کی اخلاق بھی خراب ہوں۔ وہ احکام شریعت کی اطاعت بھی نہ کرتا ہو۔ وہ نماز روزےکا بھی پابند نہ ہو۔ وہ فاسق وفاجر ہو۔ حتیٰ کہ وہ زانی اور شرابی بھی کیوں نہ ہو۔ایک بات ایسی ہے جس کا وہ نہایت سختی سےپابندی ہو گا۔
وہ یہ کہ وہ سوُر(کے گوشت)کو حرام سمجھےگا۔وہ اسے کبھی نہیں کھاےَ گا۔ اس پر ہزار سختی کی جاےَ یا کتنا ہی بڑا لالچ کیوں نہ دیا جاےَ وہ اس کے قریب تک نہ جائے گا۔ سور کے گوشت کا کھانا تو ایک طرف وہ اس کا نام تک سننا گوارا نہیں کرے گا۔اس کے تصور سے اسےجھرجھری آجاےَگی۔اگر اسے کہا جائے کہ تم نے فلاں بدمعاملگی کی ہے تو وہ (اپنی صفائی میں)بلا ساختہ کہے گا کہ میرے لئےتو ایک پیسہ بھی سور کے برابر ہے۔
سوال یہ ہے کہ جس طرح سور کے متعلق ہمارا عمل یہ ہے کیا ناجائز کمائی کے متعلق بھی ہمارا ردعمل اس قسم کا ہے؟ بالکل نہیں۔قطعاََ نہیں۔ حالانکہ جس خدا نے سور کے گوشت کو حرام کرار دیا ہےاس نے ناجائز کمائی کو بھی حرام قرار دیا ہے۔تو کیا یہ امر موجب حیرت نہیں کہ ایک حرام کے متعلق تو اس قدر شدیدردعمل اور دوسرے حرام کے خلاف رد عمل تو کجا، اس کے حرام ہونے کا ، ہمیں احساس تک نہیں ہوتا؟ سور کا گوشت تو ایک طرف رہا۔اگر کسی ہوٹل کے متعلق شبہ ہو جائے کہ اس میں کباب، سور کی چربی میں تلے جاتے ہیں تو اس ہوٹل کی اینٹ سے اینٹ بجا دی جائے۔ لیکن وہی لوگ ساری ناجائز کمائی سے اپنا پیٹ بھرتے رہتے ہیں اور انہیں کبھی اس کا احساس نہیں ہوتا کہ ہم حرام کھا رہے ہیں۔ ناجائز کمائی میں بعض صورتیں ایسی بھی ہوتی ہیں جنہیں حکومت کا مروجہ قانون جرم قرار دیتا ہے۔ اس قسم کی کمائی کے متعلق یہ تو کہا جائے گا کہ ایسا کرنا جرم ہے۔ یہ نہیں سمجھا جائے گا کہ ایسا کرنا ''حرام'' (یا گناہ) ہے۔۔۔ اوراگر معاشرے میں جرائم عام ہو جائیں تو اس کمائی کے جرم ہونے کا حساس بھی مٹ جائے گا۔۔ ناجائز کمائی کی بعض صورتیں ایسی ہوگی جنہیں مروجہ قانون حکومت جرم قرار نہیں دیتا۔ اس سےاجتناب برتنے کا احساس تک نہیں ہوگا۔لیکن جس خدا پر ایمان لانے سے ہم مسلمان کہلاتے ہیں۔ اس نے حرام اور حلال اور جائز وناجائزکا معیار اور بتایا ہے۔آئیے ہم دیکھیں کہ وہ معیار کیا ہے۔
باطل کی کمائی
قرآن مجید کی دو اصلاحیں بڑی بنیادی ہیں یعنی حق اور باطل۔ قرآن کریم آمدنی کے جن ذرائع کو جائز قرار دیتا ہے، وہ آمدنی حق کے مطابق اور حلال ہے۔ جن ذرائع کو وہ ناجائز ٹھہراتا ہے ، وہ آمدنی باطل اور حرام ہے۔ حرام اور حلال کا یہ بنیادی معیار ہے۔
قرآن مجید سورہ بقرہ کی آیت 183/187 میں روزوں کے احکام ہیں۔ روزہ کے معنی یہ ہیں کہ ایک مسلمان روزہ کی حالت میں خدا کے حکم کے مطابق ان چیزوں کو بھی اپنے اوپر حرام قراردے لیتا ہے جنہیں خدا نے عام حالات میں حلال قرار دیا ہے۔ وہ خدا کے اس حکم کی اس شدت سے پابندی کرتا ہے کہ سخت سے سخت گرمی میں انتہائی پیاس کی حالت میں۔کمرے کے اندر تنہا بیٹھے ہوئے جب کوئی دیکھنے والا نہیں ہوتا، پانی کا ایک قطرہ بھی حلق میں نہیں پٹکاتا لیکن روزوں کے احکام کے بالکل ملحق آیت (2/188) میں اسی خدا نے یہ حکم دیا ہے کہ:۔
وَلاَ تَأْكُلُواْ أَمْوَالَكُم بَيْنَكُم بِالْبَاطِل(2/188)
ایک دوسرے کا مال باطل طریق سے نہ کھاؤ۔
'' بے روزہ '' تو ایک طرف ،وہ روزہ دار جو مرتا مر جائے گا لیکن پانی کا ایک گھونٹ نہیں پئے گا، باطل کی کمائی کے متعلق خدا کے اس حکم کی کچھ پرواہ نہیں کرے گا۔ وہ روزہ کی حالت میں بھی ایسی کمائی کرنے میں مصروف رہے گا ہمارے ہاں روزوں کے احکام کو آیت(2/187 ) تک محدود رکھا جاتا ہے۔ ان آیات میں آیت(2/188) کو شامل نہیں کیا جاتا لیکن روزہ میں بھی تو مسلمان کو اس امر کی مشق کرائی جاتی ہے کہ جن چیزوں کو چھوڑنے کا خدا کا حکم دے، وہ انہیں بلا تامل چھوڑ دے، خواہ وہ حلال ہی کیوں نہ ہوں لیکن ہماری یہ پابندی صرف کھانے پینے کی چیزوں تک محدود ہتی ہے۔ ناجائز کمائی کو اس میں شامل نہیں کیا جاتا۔ بالکل اسی طرح ، جیسے سور کھانے کو تو حرام سمجھا جاتا ہے لیکن ناجائز کمائی کو حرام نہیں سمجھا جاتا۔
قرآن کریم بنی اسرائیل (یہودیوں) کی تباہی کا ایک بنیادی سبب یہ بتاتا ہے کہ:
أَكْلِهِمْ أَمْوَالَ النَّاسِ بِالْبَاطِلِ(4/161)
وہ لوگوں کا مال ناجائز طریق سے کھا جاتے تھے۔
اور اس کے آگے ہے،
وَأَعْتَدْنَا لِلْكَافِرِينَ مِنْهُمْ عَذَابًا أَلِيمًا(4/161)
ان میں سے جواس جرم کے مرتکب ہوتے ہیں،وہ کافر تھے اور ان کے لئے سخت عذاب کی وعید کی گئی تھی
اس سے ظاہر ہے کہ ناجائز کمائی کرنا ، کفر کے مرادف اور عذاب جہنم کا موجب ہے۔سوچئے کہ اس ناجائزکمائی کے خلاف اس سے زیادہ واضح اور سخت تہدید اور کیا ہو سکتی ہے!
باطل (ناجائز) کمائی کے بہت سے گوشے ہیں مثلاََ ، دغا، فریب، رشوت، چوری،خیانت، دھاندلی، گراں فروشی، چوری بازار،وغیرہ، لیکن اللہ تعالیٰ نے ایک ایسے گوشے کا زکر خاص طور پر کیا ہے جس کی طرف عام طورپر ہماری نگاہ نہیں جاتی۔ اس نے کہا ہے۔
احبارو رہبان
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ إِنَّ كَثِيرًا مِّنَ الأَحْبَارِ وَالرُّهْبَانِ لَيَأْكُلُونَ أَمْوَالَ النَّاسِ بِالْبَاطِلِ وَيَصُدُّونَ عَن سَبِيلِ اللَّهِ (9/34)
اے جماعت مومنین ! (یاد رکھو) علماء اور مشایخ میں سے اکثریت کی یہ حالت کہ وہ لوگوں کا مال ناجائز طریق سے کھاتے ہیں اور انہیں اللہ کی طرف جانے والی راہ سےروکتے ہیں۔
علامہ شبیر عثمانی اس کی تشریح کرتے ہوئے لکھتے ہیں:۔
یعنی(وہ) روپیہ لے کر احکام شرعیہ اور اخبار الہیہ کو بدل ڈالتے ہیں۔ ادھر عوام الناس نے انہیں، جیسے پہلے گذارا، خدائی کا مرتبہ دے رکھا ہے۔ جو کچھ غلط کہہ دیں وہی ان کے نزدیک حجت ہے۔ اس طرح علماء و مشائخ نذرانے وصول کرنے، ٹکے بٹورنے، اور اپنی سیاوت اور ریاست قائم رکھنے کے لئے عوام کو مکرو فریب کے جال میں پھنسا کر راہ حق سے روکتے رہتے ہیں، کیونکہ عوام اگر ان کے جال سے نکل جائیں اور دین حق اختیار کر لیں تو ساری آمدنی بند ہو جائے۔
(حاشیہ شیخ الہند ، مولانا محمود ا لحسن صفحہ 248)
خبیث اور طیب
جائز اور ناجائز کمائی کے سلسلہ میں ، قرآن مجید میں اصلاحات بھی آئی ہیں۔ مثلاً ۔۔۔ طیب اور خبیث۔۔۔ حق و باطل کی طرح یہ اصطلاحات بھی بڑی جامع ہیں لیکن موضوع زیر نظر کی رو سے ، ان کا مفہوم بھی جائز اور ناجائز لیاجانا زیادہ مناسب ہے۔ اللہ تعالیٰ نے حضور نبی اکرم ﷺ کی بعثت کا ایک مقصد جلیلہ یہ بتایا ہے کہ:۔
وَيُحِلُّ لَهُمُ الطَّيِّبَاتِ وَيُحَرِّمُ عَلَيْهِمُ الْخَبَائِثَ (7/157)
وہ لوگوں کے لئے طیبات کو حلال اور خبائث کو حرام قرار دے گا۔
قرآن کریم کے اس واضح ارشاد کے مطابق ، جائز کمائی طیب یعنی حلال ہے اور ناجائز خبیث یعنی حرام۔ یعنی لفظ (حرام) لحم خنزیر (سور کے گوشت) کے متعلق آیا ہے۔(5/3) لہٰذا ایک مسلمان کے لئے سور اور ناجائز کمائی میں زرا بھی فرق نہیں۔ دونوں یکساں حرام ہیں۔ اسی لئے فرمایا کہ:
لاَّ يَسْتَوِي الْخَبِيثُ وَالطَّيِّبُ وَلَوْ أَعْجَبَكَ كَثْرَةُ الْخَبِيثِ (5/100)
چونکہ ناجائز طریق سے انسان چند دنوں میں لاکھوں پتی ہو جاتا ہے۔ اس لئے ہر شخص لپک کر اس کی طرف جاتا ہےلیکن (مسلمانوں ! تمہیں یاد رکھنا چاہئےکہ) جائز، اور ناجائز کمائی کبھی ایک جیسی نہیں ہو سکتی،اسی طرح جیسے حلال اور حرام ایک جیسے نہیں ہو سکتے۔
قرآن مجید نے خبیث وطیب (جائز و ناجائز) کی کئی مثالیں دی ہیں۔ ان میں سے ایک مثال یہ ہے کہ:۔
وَآتُواْ الْيَتَامَى أَمْوَالَهُمْ وَلاَ تَتَبَدَّلُواْ الْخَبِيثَ بِالطَّيِّبِ وَلاَ تَأْكُلُواْ أَمْوَالَهُمْ إِلَى أَمْوَالِكُمْ إِنَّهُ كَانَ حُوبًا كَبِيرًا(4/2)
اور یتیموں کا مال اسباب ٹھیک ٹھیک دی کرو۔ایسا نہ کرو کہ ان کی طیب چیزون کو رکھ لو اوران کے بدلے اپنی خبیث چیزیں انہیں دیدو۔نہ ہی ان کے مال اور اپنے مال کو ملا کر گڈھ مڈھ کرو۔ یاد رکھو! یسا کرنا سخت بے انصافی کی بات اور وبال عظیم کا باعث ہے۔
''یتیم'' سے با لعموم وہ بچے مراد ہوتے ہیں جن کا باپ فوت ہو جائے۔ یہ بھی ٹھیک ہے، لیکن اس کے بنیادی معنی ہر وہ شخص ہے جو معاشرہ میں تنہا، بے یارو مددگار رہ جائے۔ مندرجہ بالا حکم میں اس قسم کے تمام افراد شامل ہیں۔ چنانچہ علامہ شبیراحمد عثمانی اس کی تفسیر میں فرماتے ہیں۔ '' ان احکام میں بیٹوں کے حکم کو شاید اس لئے مقدم بیان فرمایا کہ یتیم بے سرو سامانی اور مجبوری اور بے جارگی اور بے کسی کے باعث ، رعایت اور حفاظت اور شفقت کا نہایت محتاج ہے۔'' ( ایضاً صفحہ 99) اس سے واضح ہے کہ جو لوگ معاشرہ میں بے سروسامان، کمزور،مجبور،بے چارہ اور بے کس ہوں۔ ان کی بے کسی اور بے چارگی سے ناجائز فائدہ اٹھا کر کچھ حاصل کرنا، خبیث(حرام) ہے۔ آگے چل کر کہا کہ اس طرح حاصل کردہ مال کے متعلق یوں سمجھو کہ وہ لوگ اپنے پیٹ میں جہنم کی آگ بھر رہے ہیں۔(4/10) بادنےٰ تعمق یہ بات سمجھ میں آجائے گی کہ اکثر وبیشتر حالات میں ناجائز کمائی ، دوسروں کی مجبوری، بے چارگی، بے کسی اور بے بسی سے فائدہ اٹھاکر حاصل کی جاتی ہے۔ ایسی کمائی قطعاً حرام ہے۔

رشوت
آج کل حرام کمائی میں رشوت کا نام سرفہرست آتا ہے۔ اس کا چلن ایسا عام ہو گیاہے کہ آپ نے اچھے اچھے لوگوں کو یہ کہتے سنا ہو گا کہ کیا کیا جائے آج کل رشوت کے بغیر کوئی جارہ ہی نہیں۔ روزوں کے احکام کے تسلسل میں ایک آیت (2/188) کا ایک حصہ پہلے درج کیا جا چکا ہے۔ پوری آیت یوں ہے۔
وَلاَ تَأْكُلُواْ أَمْوَالَكُم بَيْنَكُم بِالْبَاطِلِ وَتُدْلُواْ بِهَا إِلَى الْحُكَّامِ لِتَأْكُلُواْ فَرِيقًا مِّنْ أَمْوَالِ النَّاسِ بِالإِثْمِ وَأَنتُمْ تَعْلَمُونَ(2/188)
آپس میں ایک دوسرے کا مال ناجائز طریق سے مت کھاؤ۔ نہ ہی اسے بطور رشوت حکام تک اس مقصد کے لئے پہنچاؤ کہ کسی دوسرے کے مال سے تمہیں وہ مل جائے جس کے متعلق تم جانتے ہو کہ تم اس کے حق دار نہیں ہو۔
کس قدر صاف اور واضح ہے یہ حکم خداوندی ۔ آج کون نہیں جانتا کہ رشوت حرام ہےلیکن اس کے باوجود جانتے بوجھتے اس کا چلن عام ہو رہا ہے۔ حیرت ہے کہ سور کو حرام سمجھ کر اس سے مجتنب رہنے والے رشوت کا مال کس طرح بلا غل وغش ہڑپ کرتے رہتےہیں۔

کاروباری دنیا
رشوت کا تعلق تو پھر بھی ایک مخصوص حلقہ سے ہے یعنی ان لوگوں سے جنہیں دوسروں کو فائدہ پہنچانے کا کچھ اختیار اور اقتدارحاصل ہوتا ہے لیکن جس راستے سے حرام کی کمائی سیلاب طرح امڈ کر آتی ہے وہ کاروبار کا میدان ہے۔ '' کاروبار'' میں تجارت،لین دین، خرید وفروخت بھی شامل ہے اور ملیں اور فیکٹریاں بھی،جن میں محنت کشوں اور کارخانہ داروں کا باہمی تعلق ہوتا ہے۔ اس میدان میں ناجائز کمائی کے بے تحاشا امکانات کے پیش نظر قرآن مجید نے مختلف انداز سے احکامات دئیے ہیں۔ سب سے پہلے عام تجارت کو لیجئے۔ فرمایا:۔
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ لاَ تَأْكُلُواْ أَمْوَالَكُمْ بَيْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ إِلاَّ أَن تَكُونَ تِجَارَةً عَن تَرَاضٍ مِّنكُمْ وَلاَ تَقْتُلُواْ أَنفُسَكُمْ إِنَّ اللَّهَ كَانَ بِكُمْ رَحِيمًا(4/29)
اے جماعت مومنین ! تم ایک دوسرے کا مال ناجائز طریق سے مت کھاؤ۔ معاشرتی زندگی میں روزمرہ کی اشیاء ضروریہ کی خرید و فروخت ناگزیر ہوتی ہے۔ اسکے لئے جائز طریق یہ ہے کہ خریدار، دکاندار کی منہ مانگی قیمت دینے پر مجبور نہ ہو۔ بلکہ یہ، گاہک اور دکاندار کی باہمی رضامندی سے ہو، اگر تم ایسا نہیں کروگے تو یہ دوسروں کو قتل کر دینے کے مرادف ہو گا ۔ خدا تمہیں ازراہ ترحم قتل وغارت گری سے بچانا چاہتا ہے۔
اس آئیہ جلیلہ میں خرید و فروخت کا ایک ایسا عظیم اصول بیان کیا گیا ہےجس سے سارا مسئلہ حل ہو جاتا ہے اور وہ ہے'' باہمی رضامندی سے تجارت'' اس سلسلہ میں جو کچھ آجکل ہو رہا ہے اس پر ایک نگاہ ڈالیئے۔دکاندار (خواہ وہ تھوک فروش ہوں یا خوردہ فروش) ایک تنظیم قائم کر لیتے ہیں جس کی رو سے وہ فیصلہ کر لیتے ہیں کہ فلاں چیز اتنے داموں میں بیچی جائے گی ۔ صاحب ضرورت ، بازار (یا منڈی ) میں پہنچتا ہے۔ دوکاندار اسے مطلوبہ جیز کی قیمت بتاتا ہے۔ خریدار دیکھتا ہےکہ قیمت بہت زیادہ ہے۔ وہ کچھ کم کرنے کو کہتا ہے تو جواب ملتا ہے کہ '' میں تو اتنے ہی میں دونگا۔ آپ کو کہیں اور سے سستی ملتی ہے تو وہاں سے لیجئے۔'' خریدار مختلف دکانوں سے دریافت کرتا ہے تو اسے وہی قیمت بتائی جاتی ہے۔فرمائیے کہ وہ ، اس کے بعد وہ کیا کرے؟ اسے اس چیز کی ضرورت ہے اس لئے وہ اسے انہی داموں خریدنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔ دکانداروں سے پوچھئے تو وہ نہایت دھڑلے سے کہتے ہیں کہ صاحب ! ہم کسی کی جیب نہیں کاٹتے۔ چوری نہیں کرتے، ڈاکہ نہیں ڈالتے۔ گاہک کو قیمت بتاتے ہیں اور اسے اختیار ہوتا ہے کہ وہ اسے خریدے یا نہ خریدے۔ یہ قرآن مجید کے ارشاد کے عین مطابق ہے جس کی رو سے اس نے تِجَارَةً عَن تَرَاضٍ مِّنكُمْ کو حلال قرار دیا ہے۔
اس جواب میں اسکے سوا کیا کہا جائے جو اللہ تعالیٰ نے فرمایا تھا کہ:
يُضِلُّ بِهِ كَثِيرًا وَيَهْدِي بِهِ كَثِيرًا(2/26)
اسی قرآن سے اکثر لوگ گمراہ ہو جاتے ہیں اور اسی سے اکثر صحیح راستہ اختیار کرتے ہیں۔
جس قسم کی تجارت کا زکر اوپر کیا گیا ہے( اور جسے آج کل قطعاً ناجائز یا معیوب نہیں سمجھا جاتا) اسے قرآن کے حکم کے مطابق قرار دینا ، ضلالت (خود فریبی) نہیں تو اور کیا ہے۔ اگر یہ دکاندار (مثلاً) سبزی فروش ہے تو اس سے پوچھئے کہ جب تم قصاب سے گوشت خریدتے ہو اور ایسا نرخ بتاتاہے کہ جسے تم نامناسب سمجھتے ہو، لیکن اس کے باوجود تم اس نرخ پر گوشت خریدنے پر مجبور ہوتے ہو،تو کیا تم اسے '' باہمی رضامندی سے تجارت'' قرار دیتے ہو! قصاب کی روش کو تو تم ظلم و زیادتی سمجھتے ہو اور اس کے خلاف واویلا مچاتے ہو لیکن اپنی قسم کی روش کو بالکل جائز قرار دیتے ہو!
قرآن کریم نے اس قسم کی تجارت کو کاروبار نہیں بلکہ قتل وغارت گری قرار دیا ہے وَلاَ تَقْتُلُواْ أَنفُسَكُم اور جیسا کے معلوم ہےقتل ،عدالت خداوندی میں سنگین ترین جرم ہے۔ اسی لئے اگلی آیت میں ہے۔
وَمَن يَفْعَلْ ذَلِكَ عُدْوَانًا وَظُلْمًا فَسَوْفَ نُصْلِيهِ نَارًا وَكَانَ ذَلِكَ عَلَى اللَّهِ يَسِيرًا(4/30)
خدا نے بات واضح طور پر سمجھا دی ہے۔ اگر تم اس کے بعد بھی ایسا ہی کرتے ہو تو اس کا مطلب یہ ہے کہ تم دیدہ و دانستہ احکام خداوندی سے سرکشی برتنے اور ظلم اور زیادتی کرتے ہو۔ اس کی سزا جہنم ہے۔ عدالت خداوندی سے اس قسم کی سزا کا ملنا کچھ بھی مشکل نہیں
چونکہ اس قسم کی تجارت میں، اشیائے ضروریہ کے تیار کرنے یا پیدا کرنے والے، تھوک فروش اور خوردہ فروش سب شامل ہیں، اس لئے تجارت عادلہ ایک خاص نظام کے تحت ہی عمل میں آسکتی ہے یعنی ایسا انتظام جس کی رو سے ، ہر شے کا ہراسٹیج پر منافع مقرر ہو اور اس کے بعد اس کا انتظام ہو کہ ہر ضرورت مند کو مقررہ قیمت پر مطلوبہ چیز مل جائے۔ اسے کہا جائے گا۔ تِجَارَةً عَن تَرَاضٍ مِّنكُمْ یہی منافع حلال ہوگا۔

ربٰو
قرآن کریم نے بیع کو حلال اور ربٰو کو حرام قرار دیا ہے۔ وَأَحَلَّ ٱللَّهُ ٱلۡبَيۡعَ وَحَرَّمَ ٱلرِّبَوٰ(2/275) ربٰو کی بحث تفصیل طلب ہے جس کا یہ موقع نہیں۔ ( میں اس کے متعلق تفصیل سے بہت کچھ لکھ چکا ہوں) اس وقت میں ربٰو (سود)کی اس ابتدائی شکل کو لیتا ہوں جس میں ایک ضرورت مند ، قرض دینے والے کو سود(بیاج) دینے پر مجبور ہوتا ہے۔ اس کی مجبوری سے فائدہ اٹھا کر، قرض خواہ جو کچھ وصول کرتا ہے،قرآن مجید اسے حرام قرار دیتا ہے۔ اسی لئے وہ کہتا ہےکہ اگر تم اس روش سے باز آجاؤ تو صرف اپنا اصل زروصول کرسکتے ہو۔ اس سے لَا تَظۡلِمُونَ وَلَا تُظۡلَمُونَ (2/279) نہ تم پر ظلم وزیادتی ہوگی کہ تمہارا اصل تمہیں مل جائےگا اور نہ ہی مقروض پر کوئی زیادتی ، کہ اسے اپنی مجبوری کے ماتحت زیادہ نہیں دینا پڑے گا۔
قرآن کریم کے اس اصول کے مطابق دیکھئے کہ اس نے جو، بیع کو حلال کیا ہےاور ربٰو کو حرام ، تو اس میں بنیادی نکتہ ہی یہ ہےکہ جو کچھ کسی سے اس کی مجبوری کا فائدہ اٹھا کر وصول کیا جائےوہ حرام ہے۔ اگر بیع میں بھی ایسا ہوتا ہےتو وہ بیع ،بیع نہیں رہتی، ربٰو ہو جاتی ہے اس اعتبار سے تو مروجہ معاشیات میں پوری کی پوری تجارت، ربٰو میں شامل ہو جاتی ہے اور ایک تجارت پر ہی کیا موقوف ہے۔ آج زندگی کا کون سا معاملہ ہے جس میں دوسرے کی مجبوری کا ناجائز فائدہ نہیں اٹھایا جاتا؟

میزان
قرآن کریم نے میزان کو بڑی اہمیت دی ہے۔ بنیادی طور پر اس نے کہا ہے کہ کارگہ کائنات، میزان کے سہارے چل رہا ہے۔
وَٱلسَّمَآءَ رَفَعَهَا وَوَضَعَ ٱلۡمِيزَانَ(55/7)
خدا نےایسے قوانین وضع کر دیئے ہیں جن کر رو سے آسمانی کروں میں باہمی توازن قائم رہتاہے۔
أَلَّا تَطۡغَوۡاْ فِى ٱلۡمِيزَانِ (8٨)وَأَقِيمُواْ ٱلۡوَزۡنَ بِٱلۡقِسۡطِ وَلَا تُخۡسِرُواْ ٱلۡمِيزَانَ(9 ۔ 8 /55)
اس لئے تم بھی اپنے معاشرے میں عدل وانصاف کے ساتھ توازن قائم رکھو اور کسی کے حقوق و فرائض میں کسی قسم کی کمی بیشی نہ کرو۔
انسانی معاشرہ میں عدل و انصاف قائم رکھنے کے لئے جو نظام قائم کیا جائے گا اس میں احکام خداوندی کے ساتھ میزان کو بھی منزل من اللہ بتایا گیا ہے(57/25 ۔ 42/17) اور قیامت میں اعمال انسان کے ''تولنے'' کے لئے بھی میزان کھڑی کی جائے گی ۔ (21/47) اس میزان کا مقصد یہ بتایا گیا ہے کہ :
فَلَا تُظۡلَمُ نَفۡسٌ۬ شَيۡـًٔ۬ا‌ۖ(21/47)
تاکہ کسی شخص پر کسی قسم کی زیادتی نہ ہو۔
یہ ہے میزان کا بنیادی مقصد۔
میزان کے اس بنیادی مقصد کو سامنے رکھ کر، آ پ کاروباری دنیا کی طرف آئیے ۔اس میں عام حکم تو یہ دیا گیا ہے کہ: وَأَوْفُواْ الْكَيْلَ وَالْمِيزَانَ بِالْقِسْطِ(6/152)
خریدفروخت کی دنیا میں تو اس حکم سے عام مراد یہی ہوگی کہ ماپ تول کے پیمانے صحیح رکھو لیکن بنظر تعمق دیکھنے سے یہ واضح ہو جائے گا کہ اس سے مراد یہ بھی ہے کہ جو کچھ کسی سے لو، یہ دیکھو کہ اسے اس کی قیمت کے مطابق چیز ملتی ہے؟ ظاہر ہے کہ ماپ اور تول صحیح رکھنا تو ہر دکاندار کا انفرادی عمل ہوگا لیکن یہ فیصلہ کرنا کہ گاہک کو اس کی ادا کردہ رقم کے مطابق چیز مل رہی ہے یا نہیں ، کسی نظام کے تابع ہو گا یعنی اشیاء سرف کی قیمتیں مقرر کرنا اس نظام کا فریضا ہوگا۔ اسی میں یہ بات بھی شامل ہو گی کہ خریدار کو آمیزش کے بغیر مطلوبہ چیز ملے۔ یہ نہ ہو کہ قیمت تو دودھ کی ادا کرے اور ملے اسے دودھیا پانی(Milky Water) یا کپڑے کے ہر گز پر لکھا ہوا تو ہو(Pure Wool) اور ہو اس میں (Nylon) کا مکسچر اس قسم کی تجارت بھی حرام ہوگی۔ قرآن کریم بتاتا ہے کہ جس قوم کے کاروبار میں اس قسم کی خرابیاں پیدا ہو جائیں، وہ بہت جلد تباہ ہو جاتی ہیں۔ اسی کی شہادت میں اس نے قوم شعیب کی عبرت آموز داستان بیان کی ہے۔ حضرت شعیب ان سے بار بار کہتے تھے کہ:
فَأَوْفُواْ الْكَيْلَ وَالْمِيزَانَ وَلاَ تَبْخَسُواْ النَّاسَ أَشْيَاءَهُمْ وَلاَ تُفْسِدُواْ فِي الأَرْضِ بَعْدَ إِصْلاحِهَا(7/85)
تم ماپ اور تول کے پیمانے صحیح رکھو ، اور جو کچھ کسی سے لو اس کےمطابق اسے چیز دو۔ اس میں کسی قسم کی کمی نہ کرو۔ ایسا کرنا ملک میں فساد برپا کرنے کے مرادف ہوگا ۔جس کا نتیجا تباہی کے سوا کچھ نہیں ہو سکتا۔
(نیز 85۔11/84 ۔26/181) اس سے واضح ہے کہ خریدو فروخت کے غلط نظام کا نتیجہ پوری کی پوری قام کی تباہی ہوتا ہے۔
محنت کا معاوضہ
قرآن کریم کی رو سے سب سے اہم سوال محنت کش کی محنت کے معاوضہ کا ہے۔ اگر اس کو محنت کا پورا پورامعاوضہ نہ دیا جائےتو جو کچھ اس میں سے غصب کر لیا جائے، وہ حلال نہیں ہوگا، حرام ہو جائے گا۔ اس نے صاحب ضرب کلیم حضرت موسیٰ اور فرعون کی آویزش کے سلسلہ میں کہا ہےکہ فرعون دسروں کی محنت غصب کر لیتا تھا۔اس لئے حضرت موسیٰسے کہا گیا کہ اس کے مستبداور ظالم نظام کو الٹ کر اس کی جگہ نظام خداوندی قائم کریں۔
لِتُجْزَى كُلُّ نَفْسٍ بِمَا تَسْعَى(20/15)
تاکہ ہر ایک کو اس کی محنت کا پورا پورا معاوضہ مل سکے۔
فَلا يَخَافُ ظُلْمًا وَلا هَضْمًا(20/112)
اور کسی کو اس کا خطرہ نہ رہے کہ اس کے ساتھ ظلم و زیادگی ہو گی اور اس کی محنت کے معاوضہ کو ہضم کر لیا جائے گا۔
سرمایہ داری میں یہ ناممکن ہے کہ محنت کش (مستاجر) کو اس کی محنت کا پورا پورا معاوضہ دیا جا سکے۔ اس میں محنت کشوں کو اجرت (Wages) پر ملازم کھا جاتا ہے، مستاجر (مزدور) اپنی اجرت مقرر نہیں کرتا۔ اسے آجر (ملازم رکھنے والا) مقرر کرتا ہے۔ اس معاملہ کو یہ کہ کر برحق قرار دے دیا جاتا ہے کہ مزدور اپنی رضامندی سے اجرت منظور کرتا ہے، اس لئےاس پر کوئی ظلم اور زیادتی نہیں ہوتی لیکن یہ وہی دلیل ہے جسے ہم تجارت کے باب میں دیکھ چکے ہیں کہ ''خریدار اپنی رضامندی سے قیمت ادا کرتا ہے'' واقعہ یہ ہے کہ خریدار ہو یا مزدور ، دونوں اپنی مجبوری سے دوسرے کی بات مان لیتے ہیں جس مزدور کے گھر میں کھانے کو ہو وہ کبھی آجر کی نامناسب شرائط پر کام کرنے کے لئے تیار نہیں ہوگا۔ اس کی معاشی مجبوریاں ہوتی ہیں جو وہ شرط پر کام کرنے کو تیار ہو جاتا ہے۔ پنجابی زبان کا ایک محاورہ ہے کہ '' بھاء کن دگاڑیا۔۔۔ رات دیاں بھکیاں'' ۔'' رات کے بھوکے سونے والے نرخ بگاڑ دیتے ہیں۔'' قرآن کے معاشی نظام میں اجرتوں کا سوال ہی نہیں ہوتا۔ مملکت تمام افراد معاشرہ کی ضروریات زندگی پورا کرنے کی زمہ داری اپنے اوپر لیتی ہے لیکن یہ اس وقت کی بات ہے جب (اور جہاں قرآنی نظام رائج ہو) ۔ سوال یہ ہے کہ موجودہ حالات میں کیا کیا جائے۔ اس کا جواب یہی ہے کہ مملکت ایسا طریق وضع کرے جس سے محنت کش کی محنت غصب نہ کی جاسکے۔ ہم تو آجر سے اتنا ہی کہ سکتے ہیں کہ مستاجر(مزدور) کی محنت سے جو کچھ غصب کیا جائے وہ رزق حلال نہیں رہتا۔

کام چور
قرآن کریم جہاں آجر کو اس کی تاکید کرتا ہے کہ وہ مستاجر کی محنت کو غصب نہ کرے، وہاں وہ مستاجر(مزدور) سے بھی کہتا ہےکہ وہ اپنی محنت کا معاوضہ لینے کا حقدار ہے۔ اگر محنت کئے بغیر معاوضہ کا مطالبہ کرتا ہے تو وہ کمائی بھی حلال نہیں ہوگی۔
لَّيْسَ لِلإِنسَانِ إِلاَّ مَا سَعَى(53/39)
اس کا بنیادی اصول ہے۔یعنی انسان صرف اپنی محنت کے معاوضہ کا حقدار ہے۔ '' کام چور'' کی کمائی ، حلال کی کمائی نہیں کہلا سکتی۔
جو کچھ اوپر آجر اور مستاجر کے متعلق کہا گیا ہےاس کا اطلاق ملازمت پیشہ حضرات پربھی یکساں ہوتا ہے۔ وہ بھی اجرت ہی پر کام کرتے ہیں جسے تنخوا کہا جاتا ہیں

تطفیف
بات چلی تھی ماپ تول کے پیمانوں سے ۔ اس ضمن میں آجر اور مستاجر کے معاملہ کا ذکر آگیا۔ قرآن کریم میں ایک سورۃ ہے جس کا عنوان ہے۔ التطفیف ۔ تطفیف کے لغوی معنی ہیں پیالہ کو پورا پورا نہ بھرنا۔ اس میں کچھ کمی کر دینا۔ نیز اس کے معنی ہوتے ہیں۔ '' اونٹنی کے پاؤں اس طرح باندھ دینا کہ وہ پوری رفتار سے نہ چل سکے'' ایسا کرنے والے کون لوگ ہوتے ہیں اور ان کا انجام کیا ہوتا ہے اسے قرآن کریم نے خود ہی واضح کر دیا
وَيْلٌ لِّلْمُطَفِّفِينَ(83/1)
تطفیف کی ذہنیت اور روش اختیار کرنے والے تباہ ہو جاتے ہیں۔
الَّذِينَ إِذَا اكْتَالُواْ عَلَى النَّاسِ يَسْتَوْفُونَ(83/2)
یہ وہ ہیں کہ جب دوسروں سے اپنے واجبات وغیرہ لیتے ہیں تو پورے پورے لیتے ہیں۔ ذرا نہیں چھوڑتے۔
وَإِذَا كَالُوهُمْ أَو وَّزَنُوهُمْ يُخْسِرُونَ(83/3)
لیکن جب دوسروں کے واجبات اور حقوق دیتے ہیں تو ڈنڈی مار جاتے ہیں۔
اس آیت میں كَالُوهُمْ اور وَّزَنُوهُمْ کےیہ معنی بھی ہو سکتے ہیں کہ دوسروں کو دیتے وقت ماپ اور تول میں کمی کر دیتے ہیں، اور یہ معنی بھی چیزوں ہی کو نہیں۔ جب یہ خود انسانوں کو ماپتے اور تولتے ہیں تو ان کی استعداو اور صلاحیت کے مطابق صلہ نہیں دیتے۔ کوشش کرتے ہیں کہ انہیں کم از کم دیا جائے اور ایسے حالات پیدا کئے جائیں کہ وہ اپنی صلاحیتوں کی نمود کر ہی نہ سکیں۔ وہ ان کے '' پاؤں باندھ کر'' رکھتے ہیں یہ بھی دوسروں کی محنت اور صلاحیتوں کے استحصال (Exploitation) کا ایک طریق ہے جو آج کل کے صنعتی دور کی عام روش ہے۔ اس طریق سے حاصل کردہ دولت بھی رزق حرام کے زمرہ میں شامل ہو گی۔

خیانت
یہاں تک گفتگو ان معاملات کے بارے میں تھی جن میں دو فریق شامل ہوتے ہیں لیکن قرآن کریم نے ان معاملات کا بھی ذکر کیا ہے جن میں ایک ہی شخص ملوث ہوتا ہے۔ اس کا حکم ہے کہ:
تَخُونُواْ أَمَانَاتِكُمْ(8/27)
جوامانتیں تمہارے سپرد کی جائیں ان میں خیانت مت کرو۔
امانت صرف وہی نہیں جسے ایک شخص کسی دوسرے شخص کے پاس بغرض حفاظت رکھ دے۔ اس میں وہ تمام روپیہ یا مال اسباب وغیرہ شامل ہے جو حکومت، یا کوئی ادارہ یا فرم اپنے کسی زمہ دار افسر کو کسی پراجیکٹ کی تکمیل کے لئے دیتی ہے۔ یا جو روپیہ پیسہ ویسے ہی اس کی تحویل میں رہتا ہے۔ جیسے خزانچی یا بینک کے افسر۔ اس روپیہ میں کسی قسم کی بددیانتی ، خیانت اور بدترین جرم ۔ اس قسم کی کمائی یکسر حرام ہے۔

حلال و طیب
رزق حلال و حرام کے سلسلہ میں قرآن کریم بہت دور تک جاتا ہے۔اس نے متعدد مقامات پر کہا ہے کہ:
وَكُلُواْ مِمَّا رَزَقَكُمُ اللَّهُ حَلالاً طَيِّبًا وَاتَّقُواْ اللَّهَ الَّذِيَ أَنتُم بِهِ مُؤْمِنُونَ(5/88)
جو حلال رزق اللہ نے تمہیں دیا ہےکہ اسے طیّب طریق سے کھاؤ اور اس طرح اس خدا کے حکم کی نگہداشت کرو جس پر تم ایمان لانے مدعی ہو۔
'' رزق حلال کو طیب طور پر کھاؤ'' یہ نکتہ غور طلب ہے۔ اسے ایک مثال کی رو سے سمجھئے ۔ بکرا حلال جانور ہے ، لیکن اگر اسے خدا کا نام لے کر ذبح نہ کیا جائے تو اس کا گوشت حلال نہیں رہتا حرام ہو جاتا ہے یہاں تک تو سب متفق ہیں اور ہم اس کی بڑی احتیاط برتتے ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ اگر کسی کا بکرا چرا کر اسے صحیح طریق سے ذبح کر لیا جائے تو کیا وہ حلال رہے گا؟ قرآن کریم کا فیصلہ ہے کہ وہ حلال نہیں رہے گا کیونکہ ناجائز طریق سے حاصل کئے جانے کی وجہ سے وہ طیب نہیں رہا لہٰذاجو چیزیں اپنی اصل کے احتبار سے حلال ہیں اگر انہیں ناجائز طریق سے حاصل کیا جائے تو وہ طیب نہیں رہتیں ، اس لئے حرام ہو جاتی ہیں۔ حلال کے لئے طیب ہونا شرط ہے۔ سورہ المائدہ میں ہے۔
يَسۡـَٔلُونَكَ مَاذَآ أُحِلَّ لَهُمۡ‌ۖ قُلۡ أُحِلَّ لَكُمُ ٱلطَّيِّبَـٰتُ‌ۙ(5/4)
اےرسولؐ! یہ لوگ تجھ سے پوچھتے ہیں کہ اللہ نے ان کے لئے کیا کچھ حلال قرار دیا ہے، ان سے کہو کہ اس نے طیبات کو حلال قرار دیا ہے یعنی ان حلال چیزوں کو جو جائز طریق سے حاصل کی گئی ہوں۔

عزت کی روٹی
''حلال اور طیب'' کی جامعیت کے طور پر قرآن مجید میں ہے۔
يَـٰٓأَيُّهَا ٱلنَّاسُ كُلُواْ مِمَّا فِى ٱلۡأَرۡضِ حَلَـٰلاً۬ طَيِّبً۬ا وَلَا تَتَّبِعُواْ خُطُوَٲتِ ٱلشَّيۡطَـٰنِ‌ۚ إِنَّهُ ۥ لَكُمۡ عَدُوٌّ۬ مُّبِينٌ(2/168)
اے لوگو! زمین میں جو کچھ حلال ہے اسے طیب طریق سے کھاؤ۔ اسے غیر طیب طریق سے کھانے سے تم شیطان کے نقش قدم کی پیروی کرو گے۔ یاد دکھو! شیطان تمہارا کھلا ہوا دشمن ہے۔
اس کے معنی یہ ہیں کہ ناجائز طریق سے جاصل کردہ دولت سے جو کچھ بھی تم خریدوگے، وہ اگر اپنی اصل کے اعتبار سے حلال بھی ہو تو بھی حرام ہو جائے گا۔ حلا ل وہی چیزیں ہوں گی جنہیں حلال کی کمائی سے حاصل کیا جائے۔ اسی کو قرآن مجید نے رزق کریم (8/4۔22/50) کہا ہے یعنی '' عزت کی روٹی'' اس کی وضاحت کرتے ہوئے دوسری جگہ کہا کہ خبیث (ناجائز کمائی سے حاصل کردہ) چیزیں کھانے والے خودخبیث ہوتے ہیں اور طیب چیزیں کھانے والے طیب۔
لَهُم مَّغۡفِرَةٌ۬ وَرِزۡقٌ۬ ڪَرِيمٌ۬(24/26)
یہی (طیب لوگ )ہیں جو تباہی سے محفوظ رہتے ہیں، اور جنہیں عزت کی روٹی ملتی ہے۔

تکاثر
ان تصریحات کے بعد قرآن کریم کہتا ہے کہ لوگ ناجائز طریقے اسی لئے اختیار کرتے ہیں کہ وہ چاہتے ہیں کہ وہ دولت سمیٹنے کی دوڑ (Race) میں ایک دوسرے سے آگے نکل جائیں اسے عربی زبان میں '' تکاثر'' کہتے ہیں جو قرآن کریم کی ایک سورة کا عنوان ہے۔ اسی میں کہا گیا ہے کہ:
أَلۡهَٮٰكُمُ ٱلتَّكَاثُرُ (1١)حَتَّىٰ زُرۡتُمُ ٱلۡمَقَابِرَ(2 ۔ 102/1)
دولت سمیٹنے کی دوڑ میں ایک دوسرے سے آگے نکل جانے کی ہوس انسان کو زندگی کے صحیح مقاصد کی طرف سے غافل کر دیتی ہے اور یہ دوڑ کہیں ختم نہیں ہوتی۔ یہ قبر تک چلی جاتی ہے۔
ضروریات کی ایک حد ہوتی ہے لیکن جب جذبہ محض دولت سمیٹنا ہو اور اس میں ایک دوسرے سے آگے نکل جانے کی ہوس ، تو اس کی کوئی انتہا نہیں ہوتی۔ وہ انسان کو پاگل کر دیتی ہے۔ یہ وہ پاگل پن ہے جس میں جائز اور ناجائز کی تمیز باقی نہیں رہتی۔ ایسے لوگوں کا مقصد حیات سے وہ جاتا ہے
جَمَعَ مَالا وَعَدَّدَهُ(104/2)
دولت جمع کرتے چلے جانا اور اسے گنتے رہنابس یہ ہوتی ہے ان کی زندگی!
يَحْسَبُ أَنَّ مَالَهُ أَخْلَدَهُ(104/3)
ایسا انسان اس خیال خام میں مبتلا ہوتا ہے کہ اس کا مال اسے حیات جاوید عطا کر دے گا۔
كَلاَّ یہ بالکل غلط ہے یہ مال و دولت اسے جہنم رسید کر کے ریزہ ریزہ کر دے گا۔ (9۔104/4) ناجائز کمائی سے جمع کردہ مال و دولت انسان کوتباہی سے نہیں بچا سکتا۔
وَمَا يُغْنِي عَنْهُ مَالُهُ إِذَا تَرَدَّى(92/11)جب تباہی اس کے سامنے آئے گی تو وہ کہے گا کہ میں اپنی دولت کو بڑی قوت کا باعث سمجھتا تھا لیکن هَلَكَ عَنِّي سُلْطَانِيَهْ(69/29) قوت کا یہی زعم باطل مجھے لے ڈوبا اہر کوئی یار و مددگار میرے کام نہ آیا(69/35)
انسان اکثر و بیشتر اولاد کی خاطر کمائی کے ناجائز طریقے اختیار کرتا ہے۔ اس ضمن میں قرآن نے کہا ہے کہ
وَاعْلَمُواْ أَنَّمَا أَمْوَالُكُمْ وَأَوْلادُكُمْ فِتْنَةٌ(8/28)
یاد رکھو! اس طرح حاصل کردہ مال اور تمہاری اولاد تمہارے لئے فتنہ بن جاتے ہیں۔ اس سے بچو۔
* * * * * * * *
حلال اور حرام کمائی کے ضمن میں جو کچھ اوپر کہا گیا ہے اس کا ماحصل یہ ہے کہ رزق حلال وہ ہے جو ان طریقوں سے حاصل کیا جائے جنہیں قرآن کریم جائز قرار دیتا ہے۔ اسے وہ حق کہ کر پکارتا ہے اور رزق حرام وہ ہے جو ناجائز طریقوں سے حاصل کیا جائے ۔ اسے وہ باطل کہتا ہے۔ حق و باطل (حرام اور حلال) کے متعلق اس کا فیصلہ یہ ہے کہ :۔
وَيَمْحُ اللَّهُ الْبَاطِلَ وَيُحِقُّ الْحَقَّ بِكَلِمَاتِهِ إِنَّهُ عَلِيمٌ بِذَاتِ الصُّدُورِ(42/24)
خدا کا قانون مکافات یہ ہے کہ حق باقی رہتا ہے اور باطل مٹ جاتا ہے۔ باطل کے جواز میں تم کتنے ہی عذر پیش کرو، وہ قابل قبول نہیں ہو سکتے کیونکہ خدا تمہارے دل میں چھپے ہوئے خیالات تک سے واقف ہوتا ہے۔
لہٰذا خدا پر ایمان رکھنے والے، ناجائز کمائی کا خیال بھی دل میں نہیں لا سکتے۔ ہمارے ہاں اس قسم کی بحثیں تو عام ہوتی ہیں کہ کوّاحلال ہے یاحرام ۔ اے کاش ! اس قسم کی بحثوں میں الجھنے والے ، مسلمانوں کو یہ بھی بتاتے کہ ناجائز کمائی سے حلال بھی حرام ہو جاتا ہے۔ اسی طرح کا حرام جس طرح سور کا گوشت حرام ہے۔ جس دن یہ حقیقت ہماراجزو ایمان بن گئی، معاشرہ سے (Curruption) اور اس سے پیدا ہونے والی خرابیوں کا خاتمہ ہو جائے گا۔ اس کے سوا اصلاح معاشرہ کی کوئی صورت نہیں۔

ایک کہانی
رزق حلال سے،معاشرہ کی خرابیوں ہی کا استیصال نہیں ہوتا۔ اس سے افراد کے کیریکٹر میں اس قدر پختگی اور بلندی پیدا ہو جاتی ہے جس کا ہم اندازہ ہی نہیں کر سکتے۔ اس ضمن میں ہمیں بچپن میں ایک کہانی پڑھائی جایا کرتی تھی جو بڑی پر معنی تھی۔ محمود غزنوی جب ہندوستان پر حملہ کے لئے آیا تو اس کی فوج میں ایک بیوہ کا نوجوان بیٹا بھی سپاہی تھا۔ جب اس کی فوج فاتح و منصور واپس گئی تو وہ بڑھیا اپنے بیٹے کی تلاش میں لشکر میں آئی۔ اس کے بیٹے کے ساتھیوں نے اس سے کہا کہ تمہارا بیٹا تو میدان جنگ میں ماراگیا تھا۔ اس نے پوچھا کہ اس کی موت کس طرح واقعہ ہوئی تھی ؟ انہوں نے کہا کہ وہ میدان جنگ سے بھاگ اٹھا۔ دشمن کا تیر اس کی پشت میں لگا اور وہ مر گیا۔ اس بڑھیا نے کہا کہ یہ تو درست ہو سکتا ہے کہ وہ میدان جنگ میں شہید ہو گیا ہو لیکن اسے میں کسی صورت میں ماننے کے لئے تیار نہیں ہو سکتی کہ وہ میدان جنگ سے بھاگ اٹھا تھا اور اس کی پشت میں تیر لگا تھایہ کبھی نہیں ہوسکتا۔ اس نے دشمن کے سامنے کھڑے ہو کر اپنے سینے پر تیر کھایا ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ مائی! تم تو میدان جنگ میں تھی نہیں۔ تم یہ بات اس حتم و یقین کے ساتھ کیسے کہہ سکتی ہو؟ اس نے کہا کہ اس لئے کہ میں نے اس کے حلق میں حرام کے دودھ کا ایک قطرہ بھی ٹپکنے نہیں دیا تھا۔ جس بچے کی پرورش رزق حلال پر ہوئی ہو ، نا ممکن ہے کہ وہ میدان جنگ میں پیٹ دکھا کر بھاگ نکلے۔بات بڑھتے بڑھتے سلطان تک پہنچی ۔ اس نے تحقیق کرائی تو بڑھیا کی بات سچ نکلی۔ اس سپاہی نے اپنے سینے پر تیر کھا کر جان دی تھی۔ اس کے ساتھیوں نے یہ غلط بیانی ہنسی مذاق کے طور کی تھی۔
یہ کہانی تاریخی اعتبار سے کیسی ہی ہو ، حقیقت کے اعتبار سے بالکل سچی ہے۔ رزق حلال سے انسان کے اندر، حق گوئی وبے باکی اور جرات وبسالت کی وہ قوتیں بیدار ہو جاتی ہیں جن کا ہم اندازہ نہیں لگا سکتے اور جو قوم اس قسم کے افراد پر مشتمل ہو گی اسے دنیا میں کون شکست دے سکتا ہے؟ اسی حقیقت کے پیش نظر تو علامہ اقبالؒ نے کہا تھا کہ:۔
اے طائر لاہوتی! اس رزق سے موت اچھی
جس رزق سے آتی ہو، پرواز میں کوتاہی !
حرام کی کمائی سے افراد اور قوم میں بلندیوں کی طرف جانے کی صلاحیتیں ہی صلب ہو جاتی ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جس فرد یا قوم کو حرام کی کمائی کا چسکا پڑ جائے ، وہ محنت کرنے سے جی چراتی ہے اور جب یہ حاوث (یعنی محنت کے بغیر مال و دولت حاصل کرنے کی روش) پختہ ہو جائے تو محنت کرنے کی صلاحیت ہی سلب ہو جاتی ہے۔قرآن کریم نے باطل (ناجائز) کمائی کو اثم کہہ کر پکارا ہے۔ (2/188) اثم کے معنی ہیں ایسی روش جس سے قوائے عملیہ میں اضمحلال واقع ہو جائے اور انسان اپنے ساتھیوں سے بچھڑ کر پیچھے رہ جائے۔ اسی طرح قرآن کریم نے میسرہ کو بھی ناجائز قرار دیا ہے۔(2/219) ہمارے ہاں میسرہ کا عام ترجمہ جوا کیا جاتا ہے یہ ٹھیک ہے جوا بھی میسرہ میں شامل ہے لیکن اس لفظ کا اطلاق صرف جوا پر نہیں ہوتا۔ اس لفظ کا مادہ یسر ہے اور یسار کے معنی بایا ہاتھ ہیں اسی طرح ہر وہ کامیابی جو محنت اور مشقت کے بغیر (ناجائز طریق سے) باآسانی حاصل ہو جائےیسرہ میں شامل ہوگی۔ اسی کمائی کے متعلق بھی یہی کہا گیا ہے کہ:
فِيهِمَا إِثْمٌ كَبِيرٌ وَمَنَافِعُ لِلنَّاسِ(2/219)
اس سے دولت تو ضرور اکھٹی ہو جاتی ہے لیکن انسان کے قوائے عملیہ میں اضمحلال واقع ہو جاتا ہے
وَإِثْمُهُمَا أَكْبَرُ مِن نَّفْعِهِمَا(2/219)
اور قوائے عملیہ میں اضمحلال واقع ہو جانے سے جو نقصان ہوتا ہے وہ اس فائدہ سے کہیں زیادہ ہوتا ہے جو اس طرح دولت حاصل ہونے سے ہوتا ہے۔
یہ ہے وجہ جو ناجائز کمائی سے قومیں تباہ ہو جاتی ہیں۔ اس سے '' پرواز میں کوتاہی'' واقع ہو جاتی ہے اور جس رزق سے پرواز میں کوتاہی آجاتی ہو اس سے (علامہ اقبالؒ کے الفاظ میں) موت ہزار درجہ بہتر ہوتی ہے ۔ جوری ، فریب دہی، گراں فروشی، ذخیرہ اندوزی،جیب تراشی، رشوت ستانی، خیانت، بددیانتی یا شباشب کروڑ پتی بن جانے کی ہوس۔ یہ سب آثم اور میسرہ(محنت سے جو چرانے) کے شجر خبیثہ کے برگ و ہار ہیں اور ان کا علاج رزق حلال۔
گر جہاں داند حرامش راحرام
تاقیامت پختہ ماند ایں نظام !
(اقبالؒ)
جو قوم ، قرآن کریم کے حرام قرار دادہ رزق کو حرام سمجھ لے اس کا نظام حیات قیامت تک محکم اور استوار رہے گا۔
* * * * * * * *

اس آرٹیکل کو PDF میں ڈانلوڈ کریں


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں